Orhan

Add To collaction

حدت عشق

حدت عشق
از قلم حبہ شیخ
قسط نمبر16

خبیب شاہ وہاں سے نکلتا ہوا سیدھا آیا اور کاریڈور
 میں  بینچ پر ہارنے کے انداز میں آکر بیٹھ گیا.... 
شاہ ذل چلتا ہوا آیا اور اس کے پاس بیٹھ کر  معاملے کے بارے میں تفتیش کرنے  لگا۔۔۔
چھوٹے جہاں تک بات مجھے سمجھ آرہی ہے تو میں اُسے جھٹلانا چاہوں گا
 ۔پر تو مجھے بتا آخر ماجرہ کیا ہے؟؟
کون ہے یہ لبابہ ؟
 کیا رشتہ ہے اسکا تیرے ساتھ ؟ 
اور اس نے Sucide attempt کیوں کیا ہے ؟ 
مگر خبیب شاہ چپ کی چادر اوڑھے ہوۓ بے سدھ کھالی نظروں سے زمین کو دیکھتا رہا۔۔۔۔
شاہ ذل نے ایک مرتبہ پھر پکارا۔۔۔۔۔۔
 مگر  وہ پھر بھی خاموش۔۔۔۔۔۔۔
فاٸز بھی انہی کے ساتھ بنچ پر آکر بیٹھ گیا اور شاہ کو چپ دیکھتے ہوئے  مشورہ دیتے ہوۓ بولا ۔
یار بڑے پاپا اور بابا کو کال کرکے یہاں بلا لے۔۔۔
 شاید یہ دونوں اُنہیں  جواب دے دیں
شاہ ذل نے ہاں میں سر ہلایا اور احمد شاہ کو کال ملانے لگا۔
دو تین بیل پر کال اُٹھا لی گٸ ۔
ہیلو ۔۔۔۔۔۔دوسری طرف سے مصروفیت زدہ لہجے میں بولا گیا ۔
بابا۔۔۔۔۔آپ ایسا کریں چاچو اور آپ سٹی ہوسپیٹل آجاٸیں۔۔۔
  پریشان ہونے کی ہوئی بات نہیں سب ٹھیک ہے یہاں۔۔۔
 ایک بار دیکھ لیں  یہاں آکر اور ان کی بنا سنے  کھٹاک سے کال بند کر دی۔۔
 ہوسپیٹل کا نام سنتے ہی احمد شاہ کے ہاتھ پاٶں پھولنے لگۓ ۔۔
وہ اور احمد شاہ ریش ڈرأٸیونگ کرتے ہوۓ آدھے گھنٹے میں ہوسپیٹل  پہنچے۔۔
 سامنے کاریڈور میں خبیب ، شاہ ذل ،  فاٸز اور شاہ زین بیٹھے نظر آۓ ۔۔۔ وہ دونوں لمبے لمبے ڈگ بھرتے ان تک پہنچے۔۔۔۔۔
ہاں بیٹا کیا ہوا اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ہے ۔۔
احمد شاہ نے پریشان ہوتے ہوۓ فاٸز سے اور شاہ ذل سے استفسار کیا ۔
بابا۔۔۔۔۔آپ اسی سے پوچھے معملہ کیا ہے؟
 پوچھیۓ لبابہ کون ہے؟
 اور اس نے sucide attmept کیوں کیا؟ شاہ ذل نے احمد شاہ کو خبیب کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔احمد شاہ آۓ اور خبیب شاہ سے دریافت کرنے لگے۔
خبیب بیٹا بتاٶ ہوا کیا ہے؟ 
خبیب شاہ پھر بھی خاموش بیٹھا رہا۔
احمد شاہ اپنا جواب نا پاکر شاہزین کی طرف رخ کیا۔
زین بیٹا آپ بتاٸیں کیا بات ہے؟
اور زین اسی کشمکش میں تھا کہ بتاٶں یا نہیں ۔۔۔
انکل وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر زین نے شروع سے آخر تک کی ساری روداد سنادی۔۔۔۔۔
 اور باقی سب نفوس کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
احمد شاہ غصے میں آگے بڑھے اور خبیب شاہ کو گریبان سے پکڑ کر ایک زوردار تھپڑ رسید کرتے ہوۓ چیخے ۔
خبیب احمدشاہ تم اتنے سنگدل اور پتھر دل نکلے کے تمہیں اس معصوم لڑکی کی آہوں کا بھی خیال نہیں
  تم بھی ان دو ٹکے کے مردوں کی طرح نکلے ۔۔۔
 تم نے بھی عورت پر ہاتھ اُٹھاکر ثابت کر دیا کہ تم بھی ان گرے ہوۓ مردوں میں سے ہو ۔
شرم آتی ہے تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوۓ ۔یہ تربیت نہیں کی تھی ہم نے تمہاری 
۔خبیب جو کب سے چپ سادھےکھڑا باتیں سن رہا تھا تربیت کے نام پر جیسے پھٹ پڑا ۔۔۔۔۔۔
کونسی تربیت بابا؟ 
کونسی تربیت کی ہے آپ نے؟ہاں
آپکو اپنی اولاد سے زیادہ اپنے بزنس کی فکر تھی۔
یہ جو آپ گرے ہوۓ مردوں کی بات کر رہے ہو تو سنییں یہ بچہ
 اُس دن ظالم بنا جس دن اُس کی پھپھو نے جن سے وہ وہ بہت زیادہattached تھا 
اپنی فیملی کے خلاف جا کر شادی کی اور اس کی فیملی نے اُس کی جان سے عزیز پھپھو سے رشتہ توڑ دیا اس دن میں نے سیکھا مرد  کہ عورت اگر غلطی کرے تو سزا دو یا جان۔سے مار دو یا رشتہ توڑ دو
 ۔۔۔۔۔
جب سنگدل بنا جب اس کا جان سے پیارا دادا اپنی بیٹی کا۔غم لیے دُنیا سے رخصت ہو گیا ۔
تب سنگدل بنا جب سب کے پاس سب موجود تھے لیکن صرف میں اکیلا تھا۔ 
اکیلے تڑپتا تھا روتا تھا، بلکتا تھا پر کوئی نہیں تھا۔۔
ارحم بھاٸ کے پاس شاہ دل بھاٸ تھے۔
 فاٸز بھاٸاور شاہ ذل بھاٸ تھے
، آپکے پاس مما اور چاچو کے پاس چچی تھیں
 مم میں کہاں تھا؟
سوچا کبھی میرے بارے میں ۔میں اکیلا روتا رہا تڑپتا۔۔کس نے سوچا میرے بارے میں۔۔۔۔ تب بنا ان مردوں کی طرح ۔
میں نے اپنی کچی عمر میں  دیکھا کہ عورت کو مرد سے نیچے رکھو اس کی پسند ہو تو شاباشی عورت کی پسند ہو تو گناہ۔۔۔
آپ نے تب فکر نہیں کی جب وہ بچہ فیملی سے دور ہوتا رہا ۔اوپر سے اور ظلم آپ نے کیا کہ مجھے بورڈنگ بھیج دیا۔پھر باہر ۔کون ہوں ، کہا وجود رکھتا ہوں میں کبھی سوچا۔
میرے سے زیادہ  ظالم تو آپ لوگ ہیں جنہیں پرواہ نہیں تھی کہ کون کیا کر رہا ہے ۔
کبھی دیکھتے ، بیٹھتے،پوچھتے کہ کیا ہوا ، شاید وہ بچہ آتا آپ سے کچھ  شٸیر کرتا کیا ہے۔
اور لبابہ عادل کی بات کر رہے ہیں تو سنیے۔۔۔۔
بیوی ہے میری ، جان ہے میری ، نہیں رہ سکتا میں اُس کے بنا۔۔۔۔
اس سر پھری لڑکی نے مجھے تھپڑ مارا میرے اندر کے حیوان کو جگایا۔
اور وہ روتے روتے سب کو اپنی  غلطیاں گنوانے لگا۔
بابا میں قسم کھاتا ہوں جب وہ تکلیف میں رہی میں اُس تکلیف میں اضافہ کرتا گیا۔
اور جب وہ روتی تھی تو میں خود بے چین ہو جاتا تھا۔
کتنی بار وہ مجھے میری ذات سمیت جھنجھوڑتی مگر میں کان دھرے رکھتا۔
کتنی بار مجھے مکافاتِ عمل کا کہتی میں اندر تک کانپ جاتا مگر پھر بھی بےحس بنا رہا۔
آپکو پتا ہے بابا ایک دفعہ وہ آٸ تھی جب میں بخار میں پھنک رہا تھا تب اس نے میری خدمت کی تھی۔میرا بخار اُترتے ہی وہ اُٹھنے لگی تو میں نے نہ جانے کی التجا کی۔
اور اس نے اپنی أنا کو مار کر میری طرف قدم بڑھایا۔ایک حسین زندگی کے لیے ۔مگر میں نے  آخری مرتبہ اُس کی ذات پر ایسی کاری ضرب لگاٸ کہ اُس نے میرے ساتھ رہنے سے اچھا موت کو گلےلگانا پسند کیا۔۔
روتے روتے شاہ کی ہچکیاں بندھ گٸیں مگر جیسے آج وہ سب کچھ کہنے کی ٹھانے بیٹھا تھا  اور بوجھ اتارنا  چاہتا تھا ۔۔ 
پتا ہے بابا اس نے جب یہ کیا تو مجھے کہہ رہی تھی۔
”خبیب شاہ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔۔۔ ۔۔۔مم مجھے کہہ رہی تھی کہ مم میں تڑپوں گا
 ،روٶں گا تڑپوں گا اللہ سے بھیک مانگوں گا اس کے لیے ۔
اور پتا ہے۔۔۔۔۔۔
پھر خود کا مذاق بناتے ہوۓ کہتی ، تم کیوں رو گے اپکو پتا ہے ایسے ہنسنے لگی۔۔۔۔
ہا ہا ہا ہا ہا ہا
پھر کہتی کہ خبیب شاہ میں 
۔ تمہیں بددعا دیتی ہوں کہ جیسے میں رہی بے سکون میں  تم بھی سکون میں نہیں رہو گے۔
باقی سب کے تو کلیجے اس کے درد پر پھٹنے کے در پر تھے۔
ہر ایک کی آنکھ اشک بار تھی ۔وہ خود بھی بچوں کی طرح تڑپ رہا تھا۔
بابا اُس سے کہییے میں نہیں رہ سکتا اُس کے بغیر ۔لبابہ ہے تو میں ہوں ۔وہ نہیں تو میں بھی نہیں ۔
پہلے میری روح مر گٸ تھی اب میں بھی مر جاٶں گا۔
بابا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے مجھے کہا ہے کے آپ کی واٸف خود نہیں جینا چاہتی۔۔
اور وہ روتے ہوۓ احمد شاہ کے گلے لگ کر چھوٹے بچوں کی طرح ضد کرنے لگا۔
بابا اُس سے کہہ دیں لوٹ چلے زندگی کی طرف ،میں مر جاٶں گا آپ بات کریں گے نا بابا۔۔۔
اور احمد شاہ صرف ہاں میں سر ہلا سکے 
ہر کوٸ اپنے آپ کو مجرم ٹھرارہا تھا 
شاہ ذل چلتا ہوا اِس تک آیااور گلے لگاتا ہوے بولا۔۔۔
چھوٹے میری جان میں ہوں نہ مجھے معاف کر دے ۔۔میں بات کروں گا لبابہ سے۔
اور احمد صاحب بھی اسکی ہمت بناتے ہوئے لبابہ سے بات کرنے کی کہنے لگے۔۔
سچ میں بھائی آپ بات کریں گے نا اس سے۔۔۔۔ وہ جیسے سمجھ رہا تھا کہ اگر شاہذل بات کرے گا تو وہ مان جائے گی۔۔۔۔۔
بھائی آپ بتائیے گا لبابہ کو کہ جیسے وہ کچھ ہفتے اپنوں سے دور رہی ہے میں تو ایک عرصے سے اس ہجر سے گزر رہا ہوں۔۔۔ اپنوں کے ہوتے ہوئے میں بھی محروم رہا ہوں۔۔۔۔۔۔
اور سب تو بس اس کی باتیں سن رہے تھے۔۔۔۔۔  
بھائی آپ اسے بتائے گا کہ میں نے سب کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتانا اسے آپ بولو بتاؤ گے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہذل اور باقی سب کو لگ رہا تھا کہ ان کا کلیجہ جیسے پھٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
بھائی پتا ہے میں کیا کہتا تھا اسے۔۔۔۔۔ کہ مجھے تم سے نفرت ہے ۔۔۔۔ بھائی کیا وہ مانے گی کہ خبیب شاہ کا غرور آنا پورے وجود سمیت مسمار ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہے تو  خبیب شاہ ہے۔ وہ نہیں تو خبیب شاہ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور باقی سب تو اس کی دیوانگی دیکھ کر ڈنگ تھے جو خبیب شاہ کسی سے سیدھی طرح بات نہیں کرتا تھا آج ایک لڑکی کے لیے تڑپ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
احمد شاہ جلدی سے آگے بڑھے اور زور سے خود میں۔ ھینچتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔۔
بس میری جان آپکے بابا ہیں نا وہ بات کریں گے۔۔۔۔ لبابہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو رہا اسے  ۔۔۔۔۔۔۔
آپ سوچ نہیں سکتے کتنی تکلیف ہو رہی ہے مجھے ایسے دیکھ کر اپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ حوصلہ رکھیں کیوں کہ اب آپ کے بابا آپکے ساتھ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بات کروں گا اپنی چھوٹی فاطمہ سے۔۔۔۔
باقی سب تو ان کی اس بات پر مسکرانے لگے مگر خبیب شاہ ابھی بھی اسی پوزیشن میں تھا۔۔۔۔۔
بابا اللہ بھی میرے ساتھ ہے ۔۔۔۔ مجھے یقین ہے میں اسے منا لوں گا۔۔۔۔۔ اسے اپنی محبت سے اور اپنی چاہت سے۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
شاہ آنسو صاف کرتے ہوئے پر اعتماد سے بولا۔۔۔۔۔۔
اور باقی سب نے آنسوں صاف کیے اور اجتماعی انشاللہ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائز نے ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے چھوٹے تجھے یک بات پتا ہے۔۔۔۔۔
وہ شاہ کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
اور شاہ سوالیہ نظروں سے فائز کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
بیٹا جی یہ جو ہنی بھائی ہیں آپکے یہ ابھی ہوسپٹل سے فری ہوئے ہیں اور خبیب بات سمجھتے ہوئے مسکرانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوئے بکواس نہیں کر پٹے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھا شاہ نے گھورتے ہوئے وارن کیا۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہاہاہاہا
سالے ہاتھ تو لگا پھر بتاؤں گا میں اور باقی سب تو اس کی بات پر ہنسنے لگے جب کہ شاہ ذل اسے لاتعداد میں القابات سے نوازنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
شاہ تجھے پتا ہے یہ سادہ میں انٹرسٹڈ ہے۔۔۔۔۔۔۔ 
ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ ہو فائیز بھائی یہ بات مجھے آپ سے پہلے کی پتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائز تو یہ سب سنتے ہے گھورنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
بس کردے ڈرامے باز شادی ہو گئی پر بچپنا نہیں گیا۔۔۔۔۔
شاہذل ابھی بات مکمل کرتا کہ دونوں کے والد بروقت چیخے۔۔۔۔
کیااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فائز کو لگا بیٹا آج تو تیرا قتل پکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فائز نے ڈرتے ہوئے شاہذل کو اگے کیا اور کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
یار بچا لے ۔۔۔۔۔۔ آج ان دو ہٹلروں سے۔۔۔۔ میں تیری کل ہی سارہ سے نکاح کروا دوں گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشاہذل نے مڑ کر اسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ بیٹا تو تو گیا۔۔۔۔۔ ۔
بابا فائز کو روڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک ایک بات شاہ ذل نے دونوں کے گوش گزار دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ اور بولتا رمشاء جو فائز کو ڈھونڈتے ہوئے آئی تھی شاہذل نے باقی سب اور فائز کو آنکھ مارتے ہوئے بات کو اور بڑھایا جوکہ فائز کے سر پر لگی تلوے بجھی۔۔۔۔۔۔
بابا وہ تو رمشاء کی نانو بہت بیمار تھی اور شریف خاتون تھی۔۔۔۔ تو فائز سے کروا دی ورنہ اسے تو کوئی بھی اپنی بیٹی نہیں دیتا آپ سوچ نہیں سکتے آج بھی ایک لڑکی کے بھائی سے اسے تھپڑ پڑھا۔۔۔۔۔۔۔ میں تھا تو بچا لایا۔۔۔۔۔۔۔۔ رمشاء تو فائز کو پانی بھری آنکھوں سے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ شاہذل انجان بنتے ہوئے رمشاء کو مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی اپ۔۔۔۔۔۔۔ سب نے بروقت اس کی طرف دیکھا باقی سب اور فائز اس کی چلاکی سمجھ گئے پر رمشاء بچاری۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم! رمشاء نے مودبانہ انداز میں سلام کیا  
جس کا جواب سب نے خوش دلی سے دیا جبکہ فائز شاہذل کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے سالم نگلنا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
احمد شاہ اور حمزہ شاہ نے آگے بڑھ کر سر پر ہاتھ لگایا اور اس کی نانو کے بارے میں پوچھنے لگے۔۔۔۔۔
رمشاء انہیں طبعیت کا بتاتے ہوئے نانو کے روم کی طرف چل دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں نانو کے  وارڈ تک پہنچے اور شاہذل فائز کو آنکھ مارتے ہوئے نا و کی وارڈ کی طرف بھاگ گیا۔۔۔۔۔ 
جبکہ شاہ وہیں بینچ پر بیٹھ کر اپنے متاع جان کی زندگی کے باری میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments